Search Bar

New Urdu Story Himmat na Harna Teen Auratien Teen Kahaniyan

New Urdu Story Himmat na Harna Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

آج کے دن کے لئے جیتی رہی، اپنے رب سے دعائیں مانگتی رہی کہ میرے دونوں بچے پڑھ لکھ جائیں اور کسی عزت دار مقام پر پہنچ جائیں۔ وہ عزت جو غربت کے ہاتھوں ہم نے کھو دی تھی۔ اپنے بچوں کو بھی سمجھاتی تھی کہ چاہے بھوکا سونا پڑے مگر پڑھنے سے جی نہ چرانا۔ ہم کو مفلسی کی ذلت اور غربت کی دلدل سے نکال کر اگر کوئی سیڑهی اوپر لے جانے والی ہے تو وہ تم لوگوں کی محنت سے پڑھائی ہے۔ بچے میری بات کو سمجھنے یا نہ سمجهتے لیکن بے چارے بھوکے پیاسے اسکول بلاناغہ ضرور جاتے تھے۔ مجھے اس بات کا بھی قلق تھا کہ میرے پڑھنے کی عمر تھی، والد اس دنیا سے چلے گئے اور میں صرف پانچویں تک تعلیم حاصل کرسکی۔ ہوش سنبهالا، بڑی تین بہنوں کو جوان پایا۔ بھائی کوئی تھا نہیں اور گھر کا بوجھ اماں کے کمزور کندھوں پر تھا۔ مرد ہو تو دو وقت کا چولہا جلتا ہے، ہمارے گھر تو ہفتوں نہ جلتا۔ ماں غریب کڑھائی کرتے کرتے آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھی، تب بھی غربت کو گھر سے دهکیل نہ سکی، بے چارگی کا در کھلا ہی رہتا ہے۔ غربت ہو اور رکھوالا بھی ابدی نیند سو رہا ہو تو اس گھر میں جوان لڑکیوں کا ہونا با قیمتی شے کا رستے میں پڑا رہ جانا، ایک ہی بات ہے۔ ماں کب تک حفاظت کرتی، رشتہ کوئی آجاتا تو لوگ غربت سے ڈر کر دوباره نہ آتے۔ جب صورت یہ ہو کہ کنوار پن کے سارے خواب خزاں کے پتوں کی طرح بابل کے صحن میں اڑنے لگیں تو غریب کی بیٹیاں یا کسی کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں یا یہ پهر آبدار موتی کانچ کے ٹکڑوں کی مانند آتے جاتے راه گیروں کے پیروں میں چبھنے لگتے ہیں۔ وہی ہوا جس کا ماں کو ڈر تھا۔ حالات سے تنگ آکر ایک کے بعد ایک دونوں میری بڑی بہنیں گھر سے بھاگ گئیں، تیسری ماموں کے لڑکے کو پسند آگئی۔ ایک میں گھر میں اندهی ماں کی لاٹھی رہ گئی۔ کچھ دنوں بعد ماں اور بہن نے صلاح مشورہ کرکے مجھ کو خالہ کے بیٹے سے بیاہ دیا۔ یہ رشتہ گھر کا تھا، ماں کو داماد کا آسرا مل گیا۔ بے شک داماد کو ببول کی چھائوں کہا جاتا ہے۔ میرا میاں سیدها ساده تها۔ خالہ نے اماں پر احسان کیا تھا جو مجھ کو بہو بنا لیا تھا۔ یتیم لڑکیوں کے بخت جلد سیدھے نہیں ہوتے۔ خالہ کے اس سیدھے سادے پوت کے پائوں اماں شاید پالنے میں نہ دیکھ پائی تھیں۔ جلد ہی اس نے گل کھلایا اور پڑوسن کی لڑکی کو لے اڑا۔ اس کارنامے کے محلے بھر میں ڈنکے بجنے لگے۔ میری شادی کو ڈھائی برس ہوئے تھے اور میں دوسرے بچے کی پیدائش پر ماں کے گھر آئی ہوئی تھی کہ میرے پیچھے طلاق نامہ پہنچ گیا۔ یوں لوٹ کر شوہر کے گھر جانا نصیب نہ ہوا۔ خالہ معافی تلافی کو آئی، ننهے پوتے کو دیکھا، اپنے بیٹے کو کوسا مگر میں نے کوئی شکوہ نہ کیا۔ اب کچھ کہنے کا کیا فائده تها، طلاق نامہ مل چکا تھا۔ شوہر نے اپنی من پسند لڑکی سے شادی کرلی تھی۔ دو بچوں کے ساتھ میں ماں کے گھر میں پناہ گزین ہوگئی۔ اس واقعے کو سال بھی نہ گزرا تھا کہ تیسرے نمبر والی بہن جس کا شوہر پولیس میں تھا، ڈاکوئوں کے ساتھ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ وہ بیوہ ہوکر گھر آگئی۔ اس کے بھی دو لڑکے تھے۔ میں اس کو سمجھاتی کہ کیوں روتی ہے۔ جہاں میرے پل رہے ہیں، تمہارے بھی دو بچے پل جائیں گے۔ جس نے پیدا کیا، وہی رزق بھی دیتا ہے۔ میں ایک کوٹھی میں کام کرتی ہوں، تم بھی کسی گھر کام کرلینا۔ یہ محنت مزدوری ہے، اس میں شرمانا کیسا...! جس گھر میں کام کرتی تھی، وہاں تین افراد تھے۔ ماں، باپ اور ایک جوان بیٹا جس کا نام ناظر تھا۔ شروع میں مجھ سے ناظر کلام نہیں کرتا تھا اور نہ کوئی علاقہ رکھا۔ کچھ دنوں بعد وہ سلام کرنے لگا اور اسے مجھ سے کام بھی پڑنے لگا۔ رفتہ رفتہ گلے پڑنے لگا۔ میں بیس سال کی تھی، صورت بھی اچھی تھی۔ مفلسی کے بوجھ سے اتنی دبی ہوئی تھی کہ بات بھی نہ کرسکتی تھی۔ دوباره گھر بسانے کا تصور کیا کرتی۔ بڑے میاں اور بڑی بی دونوں اپنے بیٹے کے بارے میں فکر مند رہتے تھے کیونکہ وہ ان کا اکلوتا نورچشم تها۔ شادی ہوئی تھی، بیوی نے بے وفائی کی اور طلاق ہوگئی۔ اس بات کا ناظر کو صدمہ تھا۔ وہ اب کسی سے گھلتے ملتے نہ تھے، اجنبی عورتوں سے بات نہ کرتے اور دوسری شادی کے نام سے گھبراتے تھے۔ ایک روز ناظر نے مجھ سے شادی کے لئے کہا تو میں ششدر رہ گئی۔ وہ بولا۔ صوفیہ! میں کئی دنوں سے تمہارا مشاہدہ کررہا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ تم جیسی لڑکی ہی میرے لئے موزوں ہوسکتی ہے۔ یہ سن کر کانوں پر اعتبار نہ آیا۔ میں سمجھی کہ وہ میرا مذاق اڑا رہا ہے مگر اس نے اپنے والدین کی قسم کھا کر کہا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ یہ کوئی مذاق کی بات نہیں ہے، وہ مجھ ہی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اپنے دونوں بچوں کی مجبوری بتائی، اس کا اراده نہ بدلا۔ اس نے اپنے والدین کو بھی قائل کرلیا۔ اگرچہ وہ بالکل بھی ایک ملازمہ کو بہو کے روپ میں نہ دیکھنا چاہتے تھے لیکن ناظر نے دھمکی دی کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا جائے گا۔ اس کی والده تبھی مارے باندھے سے میری ماں کے پاس آئیں۔ ماں نے مجھے سمجھایا کہ قسمت کا دروازہ کھل رہا ہے تو کیوں ڈرتی ہے، ایسا موقعہ پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔ بیٹے کی ہٹ دھرمی سے ہونے کو یہ شادی ہوگئی مگر اس کے والدین نے مجھ کو دل سے قبول نہ کیا۔ میرے بچے ان کو خار کی طرح کھٹکتے تھے۔ ان کا وجود وہ اپنے گھر میں برداشت کرنے پر تیار نہ تھے۔ میرے بچوں کا کھانا پینا، بنسنا بولنا، کھیلنا تک ان کو نہیں بھاتا تھا۔ میری ساس کا کہنا تھا کہ ان بچوں کو ان کے باپ کے حوالے کردو. جب ان کا باپ زندہ ہے تو ہم کیوں ان کو پالیں۔ اگر یہ یتیم ہوتے تو ہم ترس کھا کر ان کے سروں پر ہاتھ رکھ لیتے۔ یہ شور کرتے ہیں، سارے گھر میں دوڑتے ہیں اور ہم بوڑهوں کا سکون برباد کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے ایک دن بھی میرے بچوں کو چین نہیں لینے دیا۔ ہوتے ہوتے یہ ٹینشن اتنی بڑھ گئی کہ میرے بچوں کو بہن آکر لے گئی۔ مجھ کو بھی سمجهايا کہ تم اپنا گھر برباد نہ کرو، تیرے بچوں کو میں پال لوں گی۔ سوچا تھا اتنی بڑی قربانی دی ہے تو کچھ دن سکون سے جی لوں گی مگر بچوں کا تو بہانہ تھا۔ دراصل ساس مجھ کو غریب اور نیچ سمجھتی تھی شاید غربت آدمی کو نیچ بنا دیتی ہوگی حالانکہ دولت آنی جانی چیز ہے۔ پہلے ہم بھی خوشحال اور عزت دار تھے پھر نہ ابا جان رہے نہ دولت رہی اور نہ عزت رہی۔ یہ تو وقت وقت کی بات ہے۔ میں نے سب جتن کرلئے، ساس کا دل نہ جیت سکی۔ میں اپنی سی کرکے بار گئی۔ ایک دن اس نے اپنے جوان بھتیجے کو میرے کمرے میں بھیج دیا۔ اس وقت میں سو رہی تھی۔ مجھ کو نہیں معلوم گهر کا فیوز از خود اڑا تھا کہ جان بوجھ کر نکالا گیا تھا۔ بجلی چلی گئی تھی، گھپ اندھیرا ہوگیا تھا۔ خدا جانے یہ شخص کس ارادے سے میرے کمرے میں آیا تھا۔ ملازم نے ناظر کے کہنے سے فيوز لگایا۔ اسی وقت ناظر گھر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ کوئی مرد چھلانگ مار کر میرے کمرے سے نکلا اور دوڑتا ہوا گیٹ سے باہر نکل گیا ہے۔ ناظر نے اس کو آواز دی مگر وہ نہ رکا اور نہ ہی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ یہ سوچی سمجھی سازش تھی۔ میں نے لاکھ قسمیں کھائیں، ناظر کو میری معصومیت کا یقین نہ آیا۔ واہ مرد کی ذات، ایک بار شک ہوجائے تو ان کے دل کے شیشے کا بال نکلتا ہی نہیں۔ پہلی بیوی کی بے وفائی سے ڈسے ناظر کا ذہنی حال ایسا تھا جیسے کہ سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔ شکی مزاج کو سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بے شعور جان لے ... باشعور کا | گھر برباد ہوجاتا ہے۔ ناظر نے میری جان تو نہ لی مگر ہمارا گھر ضرور برباد ہوگیا۔ انہوں نے میری قسموں کا اعتبار نہ کیا اور مجھے میکے بھجوا دیا۔ ساس نے میری غیرموجودگی میں کچھ اس قسم کی باتوں سے ان کے کان بھرے کہ مجھ کو طلاق دلوا کر دم لیا۔ وه ناظر کو اکثر اس قسم کی باتیں کہتی رہتی تھیں کہ بیٹا! طلاق یافتہ عورتیں چھپ چھپ کر اپنے پہلے شوہروں سے ضرور ملتی ہیں، خاص طور پر اگر ان کے بچے ہوں۔ میں ماں کے گھر بیٹھ گئی۔ اپنے بچوں کو گلے سے لگایا، آنسو تھم گئے، دل کو راحت ملی۔ وہ میری جدائی سے نڈھال تھے۔ میں ان کے بچھڑنے سے يامسال تھی۔ کیا بتائوں کہ میں نے کیا محسوس کیا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ طلاق کے بدلے مجھ کو میرے بچے واپس مل گئے تھے جو ماں، باپ کے ہوتے یتیمی کا درد سہہ رہے تھے۔ اسی سوچ سے سکون پالیا کہ گھر برباد ہوا مگر میرے لخت جگر میری بانہوں میں آگئے ہیں۔ اب یہ مجھ کو یاد کرکے بلکیں گے نہیں اور میں ان کو پڑهائوں گی۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ یہ واقعہ کیسے ہوا تھا۔ ناظر نے نکاح کے وقت قیمتی زیورات دیئے تھے جو اس کی پہلی بیوی چھوڑ گئی تھی، وہ بھی اور نئے بھی بنوا کر مجھ کو زیورات سے لاد دیا تھا۔ میں ان زیورات کو الماری میں رکھتی تھی۔ میری ساس کو اس بات کا بڑا قلق تھا کہ عورت جو ان کے گھر کی ماسی تھی اور جھاڑو پونچا کرتی تھی، اس کی جھولی میں بیٹے نے اتنے سارے گہنے ڈال دیئے، چاہتی تھیں کسی طرح یہ وہ مجھ سے لے لیں مگر ناظر کے خوف سے واپس نہیں لے سکتی تھیں۔ انہوں نے اسی وجہ سے میرا میکے جانا بھی بند کرادیا کہ زیورات میکے والوں کو نہ دے دوں۔ یوں میں بچوں کی صورت دیکھنے کو ترسنے لگی۔ اس روز فیوز انہوں نے نکلوایا اور الماری کی چابیاں پہلے سے میری سنگهار میز کی دراز سے کھسکا لی تھیں، پھر اپنے بھتیجے کو بلوا کر یہ منصوبہ بنایا کہ جب اندھیرا ہوجائے گا، ٹارچ کی روشنی میں الماری سے زیورات نکال لے بعد میں وہ مجھ پر الزام دهرتیں کہ زیور اس نے میکے والوں کو دے دیئے ہیں۔ خدا کی کرنی، عین وقت پر ناظر بابر سے گھر میں آئے۔ اس کی گاڑی کی آواز سن کر ساس کا بھتیجا چھلانگ مار کر میرے کمرے سے نکلا اور دوڑتا ہوا کوٹھی سے نکل گیا۔ وہ یہی سمجھا کہ اندھیرا ہے تو ناظر نے اس کو نہیں دیکھا ہے۔ واقعی ناظر نے ایک شخص کو میرے کمرے سے بھاگتے ضرور دیکها تها لیکن اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائے تھے۔ فیوز لگوا کر وہ کمرے میں آئے۔ میں جاگ گئی تھی، الماری بند تھی اور زیور بھی جوں کے توں موجود تھے، تبھی ان کو یہ شک ہوگیا کہ کوئی مرد مجھ سے ملنے آیا تھا۔ جلتی پر تیل کا کام میری ساس کے اس بیان نے کیا کہ چونکہ ہم صوفیہ کو گھر سے باہر اکیلے نہیں نکلتے دیتے، اس کا پہلا شوہر اس سے ملنے آیا ہوگا۔ اس ’’ہوگا‘‘ کے مفروضے نے ناظر کا دماغ گھما دیا۔ جب وہ پوچھتے۔ تمہارے کمرے میں کون آیا تھا اور فیوز کس نے نکالا تھا، میں ان کا منہ دیکھتی رہ جاتی تھی۔ سچ بتا دو، میں کچھ نہ کہوں گا، معاف کردوں گا مگر جھوٹ مت بولو اور ساس کہتیں۔ اگر چور تها تو رات کے دس بجے کیوں آدھمکا جبکہ ابھی ہم جاگ رہے تھے۔ اس کو پہلے سے کسی نے آنے کی راہ دی اور وہ صرف ثوبیہ کے کمرے میں ہی کیوں گیا؟ اور بھی تو کمرے تھے، ادھر نہ گیا۔ یہ کیا ماجرا ہے؟ خير انہوں نے جو کہا جس طرح کہا، ناظر کا دل میری طرف سے پھیر دیا اور انہوں نے مجھے طلاق دے دی۔ اب ایک اندهی ماں اور بیوہ بہن تھی اور میں دو بار کی طلاق یافتہ... بمارے چار بجے اور ہم سب کا ایک خدا ہی آسرا تھا۔ رات کو سوتے میں سوچتی کہ صبح کے لئے کچھ نہیں ہے، بچے بهوکے بغیر ناشتے کے کیسے اسکول جائیں گے؟ ان کا فاقہ ہوگا تو کیسے پڑھیں گے مگر شکر بے اس رب کریم کا کہ اس نے کرم کیا۔ ہم بھوکے سو جاتے تو وہ صبح دم کہیں سے رزق کا انتظام کر دیتا۔ بھوکے اٹھتے مگر کبھی بھوکے سوتے نہیں۔ وہ غیب سے روکھی سوکھی مہیا کرتا رہا۔ یہ سوچ کر کہ ہم دونوں بہنیں زندگی کے دکھ سمیٹتی رہیں کہ ایک روز ہمارے بچے بڑے ہوجائیں گے، اس تاریک رات کی سحر ہوجائے گی۔ جب ہمارے بچے بڑے ہوجائیں گے، لوگ ہم کو دوسروں کے گھروں کے جھوٹے برتن مانجھنے والی ماسیاں کہہ کر حقارت سے نہ دیکھیں گے۔ بمارے خواب کی تعبیر مل گئی۔ ہم بہنوں کے چاروں بچوں نے تعلیم مکمل کی اور ہم دونوں نے ان کو منزل تک پہنچانے کی خاطر انتھک محنت کی۔ پھر الله کا کرم ہوا۔ ہمارے بیٹے یکے بعد دیگرے ملازمت پاتے گئے۔ گھر میں اب چار کمانے والے مرد تھے تو آٹے کا کنستر خالی نہ تھا اور کل کی روٹی کا خوف نہ ستاتا تها۔ رفتہ رفتہ زندگی بدلنے لگی، گھر میں رزق بڑھنے لگا، روپے پیسے کی کمی نہ رہی۔ ہم نے وہ گھر فروخت کر کے ایک دوسرے محلے میں نیا گهر لے لیا۔ ہم دونوں بہنوں کے دلدر دور ہوگئے۔ وہ لوگ جو بھول چکے تھے کہ ہم ایک آفیسر باپ کی بیٹیاں ہیں، ان کو پھر سے یاد آگیا کہ ہمارا باپ آفیسر تھا، کبھی بم خوشحال تھے. دوباره خوشحالی نے ہمارے رشتے داروں کو بھی ہماری یاد دلا دی۔ وہ ہمارے گھر آنے جانے لگے اور ہمیں اپنی تقریبات میں بلانے لگے۔ ہمارے بچوں کی ہمت نے معاشرے میں کھوئی ہوئی عزت دلادی۔ خدا برا وقت کسی پر نہ لائے۔ میں تو اکثر سوچتی ہوں شاید الله تعالی دکھ دے کر بی آزماتا ہے۔ اس بات کا دکھ ضرور ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں بغیر باپ اور بھائی کے سہارے عورت کی زندگی بہت دشوار ہوتی ہے۔ ہمارا معاشره وه معاشرہ ہے کہ جہاں ایک عورت کی قیمت مٹی کے کھلونے سے زیادہ نہیں ہے۔


Post a Comment

0 Comments