Search Bar

Meeran Ne Roshni Dekhai – میراں نے روشنی دکھائی ،تین عورتیں تین کہانیاں

 

Meeran Ne Roshni Dekhai – میراں نے روشنی دکھائی ،تین عورتیں تین کہانیاں


شاہ میراں غریب لڑکی تھی اور منیر خان ایک امیر آدمی تھا۔ مگر محبت اندھی ہوتی ہے۔ امیر کی، غر میں سے ماورا ہوتی ہے ، تاہم عشق کی راہ پھولوں بھرا راستہ نہیں، یہ آگ کا کھیل ہے۔ اور یہ آگ تو دل سے دل تک جاتی ہے۔ منیر دوستوں کے ہمراہ شادی کے بعد بھی ایسی جگہوں پر جاتارہا جہاں رقص و سرود کی محفلیں سمجھتی تھیں۔ جب آگ دونوں طرف برابر گی، منیر نے شاہ میر ان سے شادی کا فیصلہ کر لی لیکن لڑکی کے والدین نے بیٹی کے ارمانوں پر اوس ڈال دی۔ اس کی محبت کو کلک کہہ کر اس شادی کو ناممکن بنادیا کیونکہ یہ خانوادہ رقص و سرود سے روزی کماتا تھا اور شاہ میراں کمائی کا ذریعہ تھی۔ کچھ دنوں تک منیر اور شاہ میراں بہت ناشادر ہے۔ رنج کا ایک سمندر گویا ان دونوں کے دلوں میں موجزن تھا۔ ان میں پارانہ تھا کہ مایوسی کی اس دلدل سے نکلتے مگر نازک سی میراں کی انہوں نے منیر کا کلیجہ شق کر کے رکھ دیا۔ منیر پہلے سے شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ تھا۔ پہلی بیوی اس کے من کو نہ بھائی اور دولت کی فراوانی بالاخانے لے جاتی۔ وہ اپنی محبوبہ کے حزن و ملال کا خیال کر کے کئی کئی راتیں سونہ پاتا تھا۔ گھر سے نکل جاتا اور نصف شب کو لمی سنسان سڑکوں پر چلتا چلا جاتا تھا۔ یہ جانے بغیر کہ جس را پر اس کے قدم پڑرہے ہیں، یہ راہ کدھر کو جاتی ہے۔ گھر تو بہت دور رہ جاتا اور وہ اس کے ہیرے سے بھی بہت آگے نکل جاتا۔ قدموں کی یہ تھکن کچھ دیر کے لئے دل کے درد کود میباضر ور کر دیتی تھی مگر یہ درد کچھ اور بھی زیادہ شدت سے جاگ پڑتا اور وہ کسی ویرانے میں ریت کے گھروندے کی مانند ھے پڑتا تھا۔ منیر کا ایک دوست ضیاءانہی دنوں اس کے ساتھ آ کر رہنے لگا۔ وہ اس کی حالت سے غمزدہ تھا۔ ضیاء نے اس کی ڈھارس بندھانے کی کوشش کی اور ایک روز منیر نے غم کو خم میں ضم کرنے کی کوشش کی توضياء نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ اس بری شے کو منہ مت لگائو، یہ محض خرافات کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس پر منیر نے دوست کو برا بھلا کہا اور جام کو ہاتھ سے نہ چھینک بلکہ اور زیادہ نشے میں ڈوبتا چلا گیا۔ ایک دن اس نے ضیاء سے کہا کہ اسے بھی اس بات پر منع نہ کرنا۔ یا تو نشہ نہیں کرتا تھا، اب کر لیا ہے تو اس کے چھوڑنے کی تکلیف سے نہیں سکتاور نہ میراں یاد آنے لگتی ہے۔ اس پر ضیاء نے سمجھایا۔ یار ! محبت ہی وہ جذبہ ہے جو آدمی سے سب کچھ کر سکتا ہے۔ ایک تم ہو کہ شاہ میراں سے سیدھی طرح شادی کرنے کی بجائے نے کا سہارالے رہے ہو۔ افسوس کہ تم نے مردوں کا نام ڈبو دیا ہے۔ دوست کی جلی کٹی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ منیر کو تو انگلی پکڑنے کی دیر تھی ، وہ سمجھا کہ اوکھے کو کھیلنے کا بہانہ ملا ہے۔ اس سنگلاخ پر چلا تو کب سے تھا، راہرو کو بس تازیانہ چاہئے تھا۔ ضیاء کے حوصلہ دینے سے اڑ گئی اور ہمت کا گھوڑا سرپٹ دوڑ پڑا۔ دیکھتے ہی دیکھنے مجنوں نے بیٹی کو صحرامیں پر باجولاں جالیا۔ سب مخالفتوں کو غبار راہ جان کر وہ شاہ میراں کے پاس جا پہنچا۔ کہا کہ یہ حیلے بہانے، روناد هو ناتیاگ۔ اگر ساتھ دینا ہے تو آگ کے دریا سے میرا ہاتھ پکڑ کر گزر لو اور اس کو تیر کر آسمان کے کنارے تک چلنا پڑے تو چلتی چلو ورنہ سوچ لو کہ اس کے بعد نہ تم کو محبت نصیب ہو گی اور نہ میرا منہ دیکھ سکو گی۔ میں ہمیشہ کے لئے یہ ملک ہی چھوڑ جائوں گا، پھر تم مجھ سا کوئی اور ڈھونڈتی رہ جانا۔ شاہ میراں، منیر کی دھمکیوں سے ڈر گئی۔ اس نے ساتھ چلنے کی ہامی بھر لی۔ انہوں نے ہر ایک کی مخالفت کو پس پشت ڈال کر نکاح کر لیا۔ منیر نے اس کے بعد پہلی بیوی سے کنارہ کر لیا۔ منیر کو شاہ میراں کیالی کہ ایک نئی دنیایل گئی۔ اس کا دل، دماغ، صورت، ہر شے نئی نویلی، ترو تازہ، مہک کر چک اھی۔ ہر شے حسین اور جوان ہو گیا۔ جنہوں نے مشکلیں پار کر کے محبت پائی، وہ جانتے ہوں گے اس وقت میں کیا سرور ہوتا ہے اور اپنا من پسند جیون سا قی پا کر آدمی کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ منیر نے اپنی حویلی چھوڑ دی۔ انہوں نے ایک چھوٹا سا گھر بسالیا جس کو وہ اپنی جنت کہتے تھے۔ سال بعد شاہ میرا ایک بچی کی ماں بھی بن گئی۔ منیر کے باغ میں بلبل تھی، اب مینا بھی چکھے گی۔ منیر سمجھتا تھا اس مہکتے چین کی بہار لازوال ہے۔ اب اس کو کبھی کسی باد سموم سے کوئی خطرہ نہیں۔ خزاں کے مردود ہاتھ بھی اس تک نہیں بن سکتے۔ اس کا یہ گمان خام خیال ثابت ہوا۔ ہر شے کو زوال ہے، اس کی خوشیوں بھری دنیا کے شباب کو بھی زوال نے آلیا۔ مسرتوں کا یہ چڑھتا چاند رفتہ رفتہ گٹھے لگا۔ ہوا یہ کہ ایک روز ایک بد بخت اس کے گھر آیا جو اس کا منہ بولا انکل تھا۔ وہ مشکلات اور حالات کے زمانے میں گھرا ہوا تھا۔ اس مصیبت کے مارے کو منیر نے برے وقت میں ترس کھا کر سہارا دیا اور اپنے گھر میں رکھ لیا۔ اس نے احسان کا بدلہ یوں دیا کہ اسی کا گھر اجاڑ کر رکھ دیا۔ اس ویرانی کے عفریت کا نام صابر تھا۔ یہ انکل ان کے چین میں خار بن کر آگیا اور ان محبت بھرے گلابوں کے در میان رہنے لگا۔ وہ اس چمن کی حفاظت کی بجائے ان کے دلوں میں کھینکنے اور ان کو زخمی کرنے لگا۔ عورت کو یوں بھی کانوں کی بھی کہلاتی ہے۔ شاہ میر اں کچھ زیادہ ہی نادان تھی۔ اس نے بد خوانی کے اس سیلاب کو روکنے کی بجائے محبت کو کچا گھر بنا کر سیلاب کے حوالے کردیا۔ اب میاں، بیوی میں روز الجھاور کہنے لگا۔ منیر میراں کو سمجھاتا، وہ نہ بجھتی، یہاں تک کہ انکل صابر ان دونوں کے نچ نفرت کا بیج بونے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ دن بھی آگیا کہ شاہ میراں روٹھ کر اپنے رشتے داروں کے گھر چلی گئی، کیونکہ صابر کے کہنے پر منیر نے اس پر بد راه | ہو جانے کی تہمت لگائی تھی۔ ایک ماہ صبر کے بعد وہ بیوی کو لینے گیا۔ اس کے سسرال والے مرضی کی شادی کرنے کی وجہ سے ابھی تک منیر کے لئے اپنے دل میں کینہ رکھتے تھے۔ ان کے ہاتھ موقع آگیا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنی بے عزتی کا بدلہ لے لیا جائے۔ جونہی وہ گھر میں داخل ہوا۔ میراں کی ماں نے داماد کا گالیوں سے استقبال کیا۔ اس کو حیرت تو بہت ہوئی جب اس کی اپنی شاہ میراں بھی پیچھے نہ رہی۔ اس نے سنا کہ منیر گالیوں کے جواب میں اس کی ماں کو برا بھلا کہنے لگا ہے تو گلدان اٹھا کر شوہر کے مارا۔ یہاں پھول آڑے آ گئے جو ڈھال بن گئے ۔ پھول ہی گلدان سے اچھل کر منیر کے چہرے پر لگے اور گلدان ایک طرف جاپڑا۔ وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ شاہ میراں سے ہی وہ چوٹ کھائے گا۔ سنگ مرمر کا بھاری گلدان تو زمیں بوس ہو گیا مگر شاہ میراں کے گھر والوں کا حوصلہ بڑھ گیا۔ گو یاوہ اسی اشارے کے منتظر تھے، اس پر ٹوٹ پڑے۔ منیر کا باز و دو جگہ سے ٹوٹ گیا اور وہ ٹوٹے ہوئے بازو اور کرچی کرچی دل کے ساتھ وہاں سے پلٹ آیا۔ وہ اس کی اوقات کے لوگ نہ تھے سو انتقامی کارروائی نہ کی۔ بے شک سسرال میں جان بچ گئی مگر عزت تو خاک میں مل گئی تھی۔ عزت تو اسی دن خاک میں مل گئی تھی جب اس نے ان خاک نشینوں کی لڑکی کو اپنے گھر کی عزت بنایا تھا جبکہ میراں ایک تھیٹر میں اس لئے ناچتی تھی کیونکہ اس کی ماں بھی رقاصہ تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جو ان کے لئے نہیں، تماش بینوں کی جیبوں سے روپیہ نکلوانے کے لئے سر عام مورقص ہو جاتے تھے اور اپنی لڑکیوں کو بھی عزت سے بیاہنے کی بجائے محفلوں کی زینت بنادیتے تھے۔ چوٹیں کھا کر منیر اسپتال میں پڑا تھا اور اس وقت کو کوس رہا تھا جب وہ پہلی بار رقص دیکھنے شاہ نوراں کے کوٹھے پر چڑھا تھا جو شاه میراں کی ماں تھی۔ جانتا گر کہ اتنی بلندی سے کروں گا تو وہ ان رقاصائوں کے بالا خانے کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر نہ جاتا۔ یہ ہے کہ محبت کسی کو خوار کرتی ہے مگر طوائف زادی کی محبت تو واقعا آدمی کو ذلیل و خوار کر ڈالتی ہے۔ پہلی بیوی نے کتنا سمجھایا تھا کہ اس گھرانے سے راہ ور سم نہ رکھو۔ دوسری شادی کر ناہی ہے تو کسی اچھے گھرانے سے کرو مگر وہ تو عشق کے مرض میں گرفتار تھا۔ بیوی اس کو اپنی سب سے بڑی دشمن لگتی تھی۔ جب اسپتال میں تنہا پڑا تھا، انکل صابر اس کی مزاج پرسی کو آئے۔ اک وہی کی شخصیت تھی جو ان کی عیادت کو روزانہ آیا کرتی حالانکہ ان کی صورت دیکھ کر منیر کے دل کے زخم ہرے ہو جاتے تھے۔ بالآخر اسپتال سے چھٹی ملی۔ انکل، منیر کو سہارا دے کر گھر لے آئے۔ اب وہ اس کے ساتھ پوری ہمدردی کرتے تھے اور منیر دل میں کہتا تھا کہ تم نے ہی تو میرے گھر کا گھر دا کیا ہے اور میرے سکون کو تہس نہس کیا ہے۔ میں کبھی کسی دن تم کو سمجھ لوں گا۔ انکل شاید اسی دن کے خواب دیکھ رہے تھے کہ منیر تنہا ہو جائے تو تیسری بار گھر بسانے کا مشورہ دیں۔ اب وہ کہتے۔ منیر میاں ! اس طوائف زادی کا خیال دل سے نکالا اور ناگھر بسالو کہ طوائف بھی اچھی بیوی نہیں ہو سکتی۔ تم نے میراں کے ساتھ سنجوگ باندھ کر بڑی غلطی کی ہے۔ اب کون مجھ کو گلے لگائے گا انکل! منیر د کھ سے کہتا۔ سارے خاندان میں بدنامی ہو چکی ہے۔ ایسانہ کہو۔ ابھی تمہارا نکل زندہ ہے۔ کوئی تم کو گلے لگائے نہ لگائے، میں گائوں گا تم کو گلے بیٹے ! میری بیٹی مسرت ہیں میں کیا کی ہے اور کی تو تم میں کبھی نہیں ہے۔ تو پھر ٹھیک ہے انکل! | اگر میری ایک شرط ہے۔ آپ کو یہ شادی ایک ہفتہ میں کرانی ہو گی۔ ایسا نہ ہو کہ شاہ میراں کا بھوت پھر سے مجھ کو چمٹ جائے۔ انکل تو اسی گھٹڑی کے انتظار میں تھے۔ سرپٹ دوڑ پڑے۔ ہفتہ میں اپنی بیٹی کو منیر میاں کے نکاح میں لے آئے ، یہ سوچے بغیر کہ اس شخص کی ایک پہلی بیوی اور تین بچے بھی ہیں۔ شادی کی رات ہی مسرت جبیں نے منیر احمد خان کو آگاہ کر دیا کہ وہ ہر گز اس سے شادی نہیں کرناچاہتی تھی کیونکہ وہ اپنے ہمسایہ لڑکے کو چاہتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر اس کے والد نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ کسی طرح شاہ میراں کو بد گمان کر کے آپ میاں، بیوی کے در میان دراڑ ڈال کر جدائی ڈالیں اور پھر میری شادی آپ سے کرا دیں کیونکہ ان کو آپ کی دولت کالا پیچ تھا، جبکہ وسیم جس سے میں پیار کرتی ہوں اور شادی کرنا چاہتی تھی، وہ متوسط گھرانے کا لڑکا ہے۔ مجھ کو اس شادی کا بیان ہے کہ سوچ لیا تھا کہ تمام حقیقت آپ کے گوش گزار کر دوں گی۔ اب آپ کی مرضی، شادی کا بندھن رکھیں یانہ ر کھیں مجھ کو کوئی ملال نہ ہو گا۔ یہ مسرت نے منیر سے کہا۔ گویا و سرے معنوں میں وہ مہذب طریقے سے طلاق مانگ رہی تھی۔ منیر نے صبح ہوتے ہی عدالت جا کر طلاق کے کاغذات تیار کروائے اور جب انکل صابر بیٹی کے نام کو نتھی کر دینے کا مطالبہ لے کر اس کے پاس آئے تو منیر نے یہ کاغذات اس کے ہاتھوں میں تھا کر کہا۔ انکل ! نہ تو مجھے کسی قسم کے جہیز کالا چی تھا اور نہ آپ کی بیٹی کو میری کو بھی نکالا ہے۔ اس کو جو چیز چاہے وہ میں اس کو اس کی خوشی کے لئے دے رہا ہوں۔ اب اس پر آپ خوش ہیں یاناخوش میں نہیں جانتا لیکن اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ نے ہی شاہ میراں پر تہمت دھر کے مجھ کو اس سے اور اس کو مجھ سے بد گمان کیا اور ہم میں دوریاں پیدا کیں جبکہ ہم دونوں بزرگ جان کر آپ پر بھروسا کرتے رہے۔ یہ واقعہ منیر نے اپنے دوست ضیاء کو بتایا تو وہ بھی رکھی ہوا کہ یہ کیا ہو گیا۔ کیا خبر کہ شاہ میراں بے گناہ ہو اور اس پر صابر نے ناحق تہمتیں لگائی ہوں تاکہ شوہر کا دل اس سے براہو اور ان میں جدائی پڑے۔ گھر برباد ہو جائے ، سو ایابی ہو گیا۔ انکل کی بیٹی مسرت کو صرف ایک رات کے بندھن کے بعد طلاق ہو گئی تھی۔ اس کا دکھ اپنے پرائے سبھی کر رہے تھے۔ وہ منیر کو برا بھلا کہہ رہے تھے جبکہ منیر کہہ رہا تھا کہ جبیانگل صابر نے کیا، اپنی نیت کے مطابق پایا۔ اب اپنی بیٹی کو گھر بٹھائے اور آنسو بہائے۔ یہ میراں کے گھر کو برباد کرنے کی سزا ہے۔ یاد رکھے گا کہ کسی کا گھر اجاڑنا، اچھی بات نہیں ہوتی۔ وہ یہ بات اب اچھی طرح سمجھ گیا ہوگا۔ ساراگ منیر سے ناراض تھا، سبھی نے اسی کو ظالم کہا۔ اس نے کبھی اپنے دل کے کان اور آنکھوں کے جھروکوں کو بند کر لیا۔ اب وہ تھا یا اس کا دل دیوانہ جس کو میراں سے محبت تھی۔ ایک دن اچانک ایک دوست کی شادی میں اس کا سامنا میراں سے ہو گیا۔ وہ وہاں رقص کرنے کو لائی گئی تھی۔ منیر نے اس کو کہا۔ خدا کے لئے میراں ! تم یہ راستہ چھوڑ دو اور شرافت کی زندگی میں واپس لوٹ آئو۔ نہ تو خود کو تباہ کرو اور نہ مجھ کو برباد کرو۔ تم جانتی ہو کہ تمہارے بغیر میرا گھر اور زندگی دونوں سونے ہیں۔ تم بھی ویران دلہیار ہوگی میرے بغیر ! پھر دنیا میں اتنی ویرانیاں سمیٹنے سے کیا حاصل جبکہ زندگی مختصر سی ہے۔ میں تو کیا تیسری بیوی بھی تیرا گھر آباد نہیں کر سکی۔ اب جائو اور پہلی بیوی کو منالو اور اس سے گھر کو آباد کر دو۔ وہ تمہارے خاندان سے ہے، شریف زادی ہے اور تمہاری اولاد کی ماں بھی ہے۔ میر اجو مقام تھا، میں وہاں پر ہوں اور تمہاری پہلی بیوی کا جو مقام ہے، وہ اس کو دے دو، اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ تم مجھے تنگ نہ کرو۔ میراں ایسانہ ہو کہ تمہاری جدائی میں ، میں ساری دنیا کے باغ اجاڑ دوں۔ دل میں اند ھیرا ہو جائے تو آدمی قدم قدم پر ٹھوکریں کھانے لگتا ہے۔ اب میری بیٹی تم نے مجھ سے جدا کر دی ہے، اس کے بغیر بھی میرے دل میں اندھیر ہو گیا ہے۔ تو یہ بات ہے۔ میراں بولی۔ اچھا ٹھیک ہے میں تمہاری بھی تم کو واپس دیئے دیتی ہوں اس یقین کے ساتھ کہ تم اس کو اپنی پہلی بیوی کے ہاتھوں میں ہی سو ہوں گے۔ وہ اس کی اچھی پرورش اور دیکھ بھال کرے گی تو میں دل پر صبر کی سل رکھ لوں گی۔ منیر کے لئے یہ سودابرانہ تھا۔ اس نے بچی کے بدلے یہ وعدہ کیا کہ وہ لوٹ کر پہلی بیوی کے پاس چلا جائے گا اور میراں کی زندگی میں واپس نہیں آئے گا۔ میر اب چاہتی تھی کہ اس کی بھی خاطر ماحول میں نہ رہے۔ وہ تو بر باد ہو ہی چکی تھی اور اب اپنے نام نہاد گھرانے کے بس میں تھی مگر وہ نیکی کے مستقبل کو بچا سکتی تھی۔ اس کے اندر ایک اچھی روح تھی، اسی وجہ سے اس نے بیٹی کی جدائی سہہ لی اور مٹی کو منیر کو واپس کر دیا۔ منیر نے اپنی پہلی اور خاندانی بیوی کو پھر سے قبول کر لیا۔ اسی کے پاس رہنے سہنے لگا جس نے میراں کی بیٹی کی بہت اچھی طرح پرورش کی اور اسکو اپنی اولاد سے بڑھ کر یاردید اب منیر کو وہ بری نہیں لگتی تھی۔ اس میں وہ بات تھی جو باقی عورتوں میں نہ تھی۔ منیر نے نشہ چھوڑ دیا تھا، وہ اب نقاط جگہوں کا بھی رسیانہ رہا تھا۔ اس نے باور کر لیا کہ پہلی بیوی ہی اس کی اصل جیون ساتھی ہے، جس نے نہ صرف اس کی عزت کی ہمیشہ پاسداری کی بلکہ اس کی اولاد کی بھی یہ تربیت کی اور میر اس کی بیٹی کو بھی غلط ماحول میں پرورش پانے سے بچالیا۔


Post a Comment

1 Comments