Search Bar

Agur Woh Zalim Mil Jae Urdu Story Meri Story

 

3 aurtain 3 kahaniyan,Famous Stories TEEN AURATIEN TEEN KAHANIYAN,Meri Kahani,Teen Auratien Teen Kahaniyan,Teen Auratien Teen Kahaniyan latest story,


جب سے ناصرہ کے شوہر نے دوسری شادی کی تھی اور اس کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے مجبور کر دیا تھا تو اس کا حال بہت برا ہو گیا تھا۔ اس کا اس دنیامیں کوئی نہ تھا۔ وہ نیم پاگل سی ہو کر رہ گئی تھی۔ جائے تو کہاں جائے؟ اللہ جانتا | تھا کہ یہ معصوم بچہ ناصرہ کا لخت جگر تھا، اس کا اپناخون تھا مگر زمانے نے ناصر ہ کی خوشیاں چھین لینے کا تہیہ کر لیا تھا۔ وہ اس کا دشمن بن چکا تھا۔ اس کے شوہر کے دل میں یہ غلط بھی ناصر ہ کی ساس کی پیدا کردہ تھی اور بیٹا ماں کی ہر بات پر سر جھکا دیتا تھا۔ ناصرہ کی بس یہی ایک غلطی تھی کہ ساجد اس کو خاندان کی مرضی کے خلاف بیاہ کر لایا تھا۔ ناصرداس کو اچھی لگی تھی اور اس پسندیدگی نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ ساجد نے سگی خالہ کی بیٹی سے منگنی توڑ ڈالی اور ناصرہ کو بیاہ کر گھر لے آیا۔ یہ قصور کتنا بڑا تھا، کیا یہ زخم ساجد کی ماں برداشت کر سکتی تھی۔ ناصرہ پر جھوٹا الزام لگا کر ساجد کی ماں نے اپنی دانائی سے یہ ثابت کر دیا کہ ناصر و بد چلن ، بد کردار اور گستاخ ہے۔ وہ کسی اور سے بھی ملتی ہے۔ ساس نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ بہو بے بس ہو کر رہ گئی جبکہ وہ بے قصور تھی پھر بھی اپنی بے گناہی ثابت نہ کر سکتی تھی۔ آخر کار ساجد ماں کے جال میں پھنس گیا اور اس نے ناصرہ کو مورد الزام ٹھہراکر اس کو طلاق دے دی اور وہ بے گھر ہو کر نہیں کی نہ رہی۔ جھونپڑی کی ایک لمبی قطار شہر کے کچھ فاصلے پر ایک گندی بستی میں دور تک پھیلتی چلی گئی تھی۔ ناصرہ نے بھی وہیں پناہ لی۔ غریبوں کے دل بڑے ہوتے ہیں، وہ کسی مظلوم کے آنسوئوں

کے سامنے موم کی طرح پگھل جاتے ہیں۔ غریبوں نے چندہ اکٹھا کر کے ناصرہ کو بھی ایک جھونپڑاڈال دیا۔ بستی والوں نے سوچا اگر پچاس جھونپڑیوں میں ایک اور جھونپڑی کا اضافہ ہو گیا تو جلا میرا کیا گیا، زمین توالد کی ہے اور آسمان بھی اسی کا نایاہوا چرچے پر جم کر کے یہاں رہنے پر اعتراض کیا کریں؟

چھوٹے بچے کا پڑوسن بواخیال رکھتی تھی اور ناصر ہ کام کی تلاش میں در در ماری ماری پھرتی تھی۔ کبھی کام مل جاتا تھا۔ کبھی فاقے ہو جاتے تھے اور آج تو پڑوسن بوار بھی بیٹی کے گھر گئی ہوئی تھی۔ آج اس کی زندگی کی سب سے زیادہ بھیانک رات تھی۔ آج قسمت اپنافیصلہ جلد ہی سنانے والی تھی۔ بادل اور کالی گھٹائیں خوب گھر گھر کر آرہی تھیں اور ایک طوفان کے آنے کی پیشگوئی کر رہی تھیں مگر وہ ان باتوں سے بے خبر تیز تیز قدم اٹھائے ایک راستے پر چلی جارہی تھی۔ وہ تہانہ تھی، اس کا تین سالہ بچہ بھی ایک بوسیدہ ہی جھونپڑی میں پڑا | بھوک اور پیاس سے نڈھال اپنی غمزدہماں کا انتظار کر رہا تھا۔ شاید اس بچے کا انتظار بھی ختم نہ ہونے والا انتظار تھا۔ اس کی ماں بھوک اور پیاس مٹانے کے لئے کچھ لینے گئی ہوئی تھی۔ مالی کے پاس ایک خراب سابر تن تھامگر اس بچاری کے پاس پیسے نہ تھے۔ تقدیر کے مارے ہوئوں میں سے یہ بھی ایک مکھی، وہ جو پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل اور خوار ہو جاتے ہیں اور جب وہ مجبور ہو کر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تو دنیا والے ان کے ہاتھوں کو نفرت سے جھلک دیتے ہیں۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑی ہوگئی اور آتے جاتے لوگوں کو حیرت سے دیکھتی رہی۔ آج بستی والوں سے اس کی امید ٹوٹ چکی تھی۔ وہ کئی بار ان کے سامنے ہاتھ پھیلا چکی تھی۔ اب تو بستی والے بھی اس کی ضرورتوں سے تنگ تھے۔ بچے کی وجہ سے وہ کہیں مستقل ملازمت کبھی نہ کر سکتی تھی اور جھونپڑی والے کیا کرتے ، وہ تو خود اس جیسے غریب تھے۔ تھوڑی دیر تک اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے

۔ اچانک اس نے یہ محسوس کیا کہ ایک شخص بہت دیر سے اس کے قریب کھڑا ہے۔ وہ اس کی جانب مڑی اور بولی۔ جلدی سے چند روپے دے دو، مجھے چھ کے لئے دودھ لینا ہے، وہ مسیح سے بھوکا ہے، بھوک سے مر جائے گا۔ آج مجھے مزدوری نہیں ملی، نہ ہی جھیک !مردنے غور سے عورت کو دیکھا۔ اس کو عورت کے بگڑے ہوئے نقوش سے کو ئی د پچیسی نہ تھی۔ غربت نے اس کے منہ پر اتنے طمانچمارے تھے کہ اس کی صورت مست لگتی تھی۔ اس کو پھی تھی تو اس کے بچے سے جس کا یہ عورت ذکر کررہی تھی۔ وہ سنگدلی سے بولا۔ تم جھوٹ بولتی ہو، سب عور تیں ایسے ہی کہہ کر بھیک مانگتے ہیں حالانکہ ان کے بچے نہیں ہوتے۔ مجھے بتائو تو بھلا کہاں ہے تمہارابچی....؟ناصرہ نے جواب دیا کہ وہ دیکھو سامنے اس میدان میں جو جھونپڑیاں ہیں، وہاں اس میں سے ذراسی ایک جوا کی جھونپڑی ہے ، وہاں میرابچہ ہے۔ وہ اکیلا پڑ ارورہا ہے۔ اگر بھوک نے اس کو سونے دیا ہو گا تور ور و کر سو جائے گا مگر یقین کرو اس کو بھوک سونے نہ دے گی۔ وہ ابھی تک رو رہا ہو گا کیونکہ میرا دل کٹ رہا ہے۔ ماں کا دل گواہی دے دیتا ہے کہ اس کا بچہ سورہا ہے یا جاگ رہا ہے۔ مردنے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ سکے ناصرہ کی ہتھیلی پر رکھ دیئے۔ ناصرہ نے شکستہ حال آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا، پھر وہ خوشی اور حیرت کے جذبے سے دیوانی ہو گئی۔ اس اندھیری رات میں سے اس کی ہتھیلی پر ستاروں کی طرح چمک رہے تھے۔ اس کی نظروں کے سامنے اپنے بچے کا مایوس چہرہ آگیا۔ وہ ایک لیے میں تیزی سے میڑک پار | کر کے دودھ کی دکان پر چل دی۔ وہاں سے اس نے دودھ خریدا اور پھر واپس آئی مگر بارش اس اند میر کی رات میں بارش کا بھی کوئی مقصد تھا جس طرح اندھیرے میں اجالے کی کرن اچانک پھوٹی تھی ، وہ غلط

لیے میں چکی تھی۔ وہ تیز تیز قدم اٹھائی اپنی منزل کی طرف جارہی تھی۔ اس نے تھوڑی دیر کے بعد دور سے ہی اپنی بو سید ہ جھونپڑی کو دیکھ لیا۔ بارش میں تیزی سے چلتی جارہی تھی اور وہ جلد سے جلد اپنے بچے کو سینے سے لگانے کو بے چین تھی۔

جیسے ہی وہ اپنی جھونپڑی کی دہلیز تک چھی، اس کا پائوں اس زور سے پھسلا کہ سنجل نہ کیا۔ وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑی۔ چند محوں تک وہ ساکت رہی، چھرا گئی تو بر تن خالی تھا۔ سار ادودھ گر چکا تھا اور اندر بچے بھی شاید ماں کے انتظار میں بلک بلک کر سو چکا تھا کیونکہ اب اس کے رونے کی آواز نہیں آرہی تھی۔ وہ جھونپڑے میں آئی، اس نے مدھم ہوتے ہوئے چراغ کی لو اونچی کی ۔ چراغ اٹھا کر بچے کے بستر کے قریب آئی مگر بچہ وہاں نہ تھا، بستر خالی پڑا تھا۔ چند روپے کے عوض وہ ظالم بردہ فروش بچے کو اٹھا کر لے گیا تھا جس نے پریشان ماں

کے ہاتھ میں چند لمح بیشتر ریزگاری رکھی تھی۔ کس قدر عجیب سودا کیا تھا اس نے ناصرہ تیار کر گر گئی۔ پھر جب ہوش میں آئی تو حواسوں میں نہ لوٹ سکی، وہ دیوانی ہو گئی ۔ سڑکوں پر ماری ماری پھیرنے گی۔ پی بستی کے مکینوں نے اس کو اسپتال پہنچادیا۔ وہ آج بھی میشل اسپتال میں اپنے بچے کو پکارتی ہے، اس کو تھپک تھپک کر لوریاں دے کر سلاتی ہے۔ وہ بچہ جو اس کے پاس نہیں، اس کی زندگی کی آخری امید ! اس کی خوشی چھین کر لے جانے والے نے نجانے اس

چنے کا کیا کیا ہوگا؟

 


Post a Comment

0 Comments